دارالعلوم حقانیہ میں دھماکہ کس نے کیا؟

سیدفخرکاکاخیل

ایک عرصہ سے دیوبند مکتبہ فکر کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دراصل افغانستان میں جہاد میں جلال الدین حقانی سے لے کر موجودہ افغان طالبان میں ملاعمر سے لے کر حال کےوزیرداخلہ سراج الدین حقانی تک دارلعلوم حقانیہ کا ایک اہم اور موثر کردار رہا ہے۔مکتبہ دیوبند کی ترویج کے لیئے دارلعلوم حقانیہ ایک اہم مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔اس طرح جمیعت علماء اسلام بھی مکتبہ دیوبند کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔دراصل افغانستان میں عقائد کےاختلاف کی ایک تاریخ ہے۔ افغان جہاد کے بعد جب روسی افواج کا انخلاء ہوا تو 1989کنڑ میں شیخ جمیل الرحمن نے باقی دھڑوں پر “بدعتی” کا الزام لگانا شروع کیا۔ وہ چونکہ اہلحیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے مکتبہ فکر کی اکثریت کنڑ، ننگرہار اور نورستان سے تعلق رکھتی تھی جب کہ افغانستان کی اکثریت حنفی دیوبندی ہے اس وجہ سے اس وقت کے جہادی دھڑوں میں ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ کنڑ میں شیخ جمیل الرحمن اور حزب اسلامی کے گلبدین حکمتیار کے بیچ کئی جھڑپیں ہوئیں۔ اس میں کئی لوگ مارے گئے جن میں عرب باشندوں کی اکثریت تھی جو شیخ جمیل الرحمن کے ساتھ تھے۔ بعد ازاں مختلف دھڑوں کی کوششوں سے ان میں جنگ بندی کرائی گئی۔ یہاں تک کہ شیخ جمیل الرحمن کو امارت اسلامیہ فی کنڑ کے نام سے ایک اسلامی ریاست بھی دی گئی جس کی کابینہ میں آدھے وزیر حزب اسلامی سے تھے۔ خود شیخ جمیل الرحمن اس ریاست کے امیر مقرر ہوئے۔

یہاں تک کہ پشاور میں اس ملک کے لیئے ایک سفارتخانہ بھی قائم کیا گیا۔ لیکن یہ ملک زیادہ عرصہ نہیں چلا اور بنیادی عقائد میں اختلاف کے باعث بالاخر شیخ جمیل الرحمن حزب اسلامی کے ایک بھرپور حملے میں کنڑ سے فرار ہو کر باجوڑ پہنچے۔ یہاں ایک مدرسہ میں بعد ازاں ایک مصری صحافی اگست1991ء میں ان کا قتل کر دیتے ہیں۔ قتل کا الزام بھی گلبدین حکمتیار پر لگایا گیا۔ لیکن شیخ جمیل الرحمن سے دیر کے مولانا صوفی محمد بھی متاثر ہوئے اور ان کے ہی عقائد پر چلتے ہوئے تحریک نفاذ شریعت محمدی کا مالاکنڈ میں آغاز کیا۔ جو خود پنج پیری مکتبہ فکر سے متاثر تھے۔ لہذا عقیدے کا ایک اختلاف جہادی دنیا میں موجود رہا ہے۔یاد رہے کہ یہی وہ دور تھا جب داعش کے بانی ابومصعب الزرقاوی افغان جہاد کے بانی عبداللہ عزام سے متاثر ہو کر ان کی موت کے ٹھیک تین روز بعد پشاور آئے تھے اور ان کی اہلیہ ام محمد سے پشاور میں ملاقات کی تھی۔ اگست 2021ء سے قبل ہی انہی عقائد کے اختلاف کے باعث عراق اور شام کے بعد افغانستان میں داعش کی داغ بیل پڑی۔ ماضی کی طرح اس بار بھی ننگرہار اور کنڑ میں اہل حدیث مکتبہ فکر کے زیادہ تر جنگجو اس میں شامل ہوئے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ صرف اہلحدیث کے جنگجو داعش میں نہیں ہیں لیکن اکثریت کا تعلق اس مکتبہ فکر سے ہے اور جو دیوبند مکتبہ فکر سے اختلاف رکھتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ افغان طالبان نے امریکی اتحادی افواج کی موجودگی میں ہی داعش کے خلاف ننگرہار اور کنڑ میں آپریشن کیئے۔اگست 2021ء میں امریکی اتحادی افوج کے انخلاء کے بعد کابل ائیرپورٹ پر بڑے پیمانے پر خودکش حملے دراصل اس خطے میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہے۔اس دھماکے کا بنیادی مقصد ہی دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ امریکی افواج کے انخلاء سے جہاد ختم نہیں ہوا بلکہ اب نئی حکومت کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اکتوبر 2020ء میں ابھی طالبان اقتدار میں نہیں آئے تھے لیکن پشاور میں ان کے حمایتی دارلعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل مولانا رحیم اللہ حقانی پر حملہ کیا گیا۔ وہ اس حملے میں بچ گئے تاہم بعد ازاں طالبان حکومت کے ٹھیک ایک سال بعد اگست 2022ء کو خودکش حملے میں ان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان پر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔اس طرح باجوڑ میں جمیعت علماء اسلام کے رہنماؤں اور اجتماع پر حملوں کی ذمہ داریاں بھی داعش قبول کرتی رہتی ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ یہ عقیدے کی لڑائی ہے۔ افغانستان میں حالیہ ایک واقعہ میں افغانستان کے وزیر مہاجرت خلیل حقانی کی خودکش حملے میں موت کے پیچھے بھی یہی عامل کارفرما تھے۔چونکہ دارالعلوم حقانیہ کو دیوبند مکتبہ فکر کے ایک قلعے کی حیثیت حاصل ہے اس لیئے مولانا حامد حقانی پر دارالعلوم حقانی کے اندر خودکش حملہ بھی اسی جنگ کی کارستانی ہے۔ داعش اس حملے کی ذمہ داری قبول کرے یا نا کرے لیکن افغان طالبان کا غصہ اس وقت اپنی انتہا پر ہوگا۔ وہ افغانستان میں اہلحدیث مکتبہ فکر کے خلاف پابندیاں مزید سخت کردیں گے۔وہ یہ بھی کوشش کریں گے کہ افغانستان میں موجود ان عناصر کے خلاف کاروائی کریں جو اس موت کے پیچھے ہو سکتے ہیں۔ بہرحال خلیل حقانی کی موت کے بعد افغان طالبان اور دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے جہادی عناصر کے لیئے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اس آگے چل کر جو کاروئیاں ہونے والی ہیں اس سے اس جنگ میں مزید شدت آئے گی۔ سو دراصل دارلعلوم حقانیہ سے طالبان کے ظہور سے جو جنگ شروع تھی یہ اس کا اختتام نہیں بلکہ خطہ میں ایک نئے جنگ کا آغاز ہے۔۔۔عقیدے کی جنگ۔

اپنا تبصرہ لکھیں