مشتاق یوسفزئی
افغان طالبان کے اہم فیصلوں سے نہ صرف افغانستان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں بلکہ یہ فیصلے امریکہ اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ ان کے تعلقات پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔
ایک متنازع مسئلہ بگرام ایئربیس کو دوبارہ امریکہ کے حوالے کرنے کا امکان ہے۔ اگر طالبان ایسا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے خطرناک اور خودکشی کے مترادف ہوگا۔ یہ نہ صرف ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ ان کے سیاسی بیانیے کو بھی کمزور کرے گا۔
اس پس منظر میں پاکستان کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی انٹیلیجنس اور سیکیورٹی اداروں کے کردار کو کھل کر سراہا ہے۔ پاکستان، ایک ایٹمی مسلم ملک ہونے کے ناطے، افغانستان میں امریکی کوششوں کا ایک اہم اتحادی رہا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اپنا کردار ادا نہ کرتا تو امریکہ آج بھی افغانستان کی جنگ میں پھنسا ہوتا۔
تاہم، پاکستان کی اس اسٹریٹجک معاونت کے باوجود، افغانستان نے اکثر پاکستان کی قربانیوں کو سراہنے کے بجائے شک و شبہات کا اظہار کیا۔ حالیہ ویڈیوز جن میں افغان مدارس کے طلبہ کو جہاد کے لیے پاکستان لے جانے کے مناظر دکھائے گئے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
تاریخی طور پر، ہر بار جب افغانستان میں بحران آیا، تو افغان عوام نے پاکستان کا رخ کیا۔ ایران کے برعکس، جس نے افغان پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھا، پاکستان نے نہ صرف اپنی سرحدیں کھولیں بلکہ انہیں شہروں جیسے کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں آزادانہ نقل و حرکت اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کیے۔
تاہم، بعض شرپسند عناصر اس فراخدلی کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور طالبان اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی پیدا کر رہے ہیں۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار ہمیشہ واضح اور مضبوط رہا ہے۔ امریکہ نے جب بھی مدد مانگی، پاکستان نے بھرپور ساتھ دیا۔ بارڈر پر باڑ لگانا، اسمگلنگ اور دہشتگردی کو روکنے کی کوششوں کا حصہ رہا ہے، اگرچہ بعض علاقوں میں دراندازی کا مسئلہ اب بھی موجود ہے.