طالبان کی حراست میں قید خواتین کو کس طرح جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ؟

مانٹیرنگ ڈیسک

افغانستان میں امارات اسلامی کی حکومت آنے کے بعد خواتین پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جس میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی کیساتھ ساتھ بغیر محرم کے سفر کرنا، سرکاری ملازمتیں اور دیگر قسم کی پابندیاں شامل ہیں، طالبان کی حراستی مراکز میں تشدد کا نشانہ بننے والی بیشتر خواتین نے افغان میڈیا کو دوران حراست ان کے ساتھ اپنائے جانے والے سلوک اور روایہ کے بارے میں تفصیلی طور پر اگاہ کیا ہے،

افغان طالبان کی حراست سے زندہ بچ جانے والے خواتین نے افغان میڈیا سے بات کی ہے اورانہوں نے حراست کے دوران طالبان کے ہاتھوں جنسی حملوں، تشدد، تذلیل، عصمت دری اور غیر اخلاقی اقدامات کے دردناک واقعات شیئر کئے ہیں۔

متاثرین میں وہ خواتین شامل ہیں جو معاشرے میں سرگرم تھیں اور جو سماجی کارکن کے طور پر خواتین پر کئے جانے والے مظالم کے خلاف منظم آواز اٹھاتی تھیں جن میں اساتذہ، طبی عملہ، طلباء، کارکنان، اور ماڈل شامل ہیں جن میں سے سبھی کا خیال ہے کہ انہیں ان کی عوامی حمایت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

افغان میڈیانے کم ازکم دس ایسی خواتین کا الگ الگ انٹرویو ریکارڈ کیا ہے،جن کوامارت اسلامی کی جانب سے حراست میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی یا انہیں ہراساں کیا گیا۔ ان میں سے آٹھ نے عصمت دری اور جنسی تشدد کی شکایات کی ہیں، جب کہ دو خواتین نے انکشاف کیا کہ طالبان کے ارکان نے پوچھ گچھ کے دوران ان کی زبردستی برہنہ تصاویر بنائیں اور انہیں بلیک میل بھی کرتے رہے۔

افغانستان کے سابق انٹیلجنس چیف احمد ضیا سراج نے تصدیق کی کہ طالبان کو بغیر کسی قانونی یا اخلاقی پابندیوں کے مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جیلوں میں بدسلوکی کو روکنے کیلئے لگائے گئے نگرانی کے کیمرے اب خواتین قیدیوں کی مانیٹرنگ اور بلیک میل کرنے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔

طالبان نے ایک 22 سالہ ہیلتھ ورکر کو مزار شریف سےاغوا کیا تھا۔ اسے ایک تاریک کمرے میں رکھا گیا تھا اور بار بار اس کی عصمت دری کرتے رہے اور اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد دھمکی دی کہ اگر وہ کام کرتی رہی توجسمانی تشدد کی ویڈیو جاری کر دیں گے۔

دائی کے طور پر کام کرنے والی زرمینہ کو طالبان کے خلاف احتجاج کرنے پر اپنی چار بہنوں کے ساتھ گرفتار کیاگیا تھا۔ حراست میں انہیں بھی جنسی طور پر ہراساں کیا گیا،اس کے کپڑے زبردستی اتارے گئے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور مزاحمت کرنے پر دھمکی بھی دی کہ اگر اس نے انکار کیا تو وہ اس کی چھوٹی بہن کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنائیں گے۔

تحلیل شدہ وزارت برائے امور نسواں کی سابق ملازم صدیقہ کو کابل میں حراست میں لیکر شدید زدوکوب کیا گیا۔ اس سے پوچھ گچھ کے دوران ایک طالب نے جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی تو وہ ویڈیو ثبوت جاری کر دیں گے۔

22سالہ ٹک ٹاکر تہمینہ پر طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے فوراً بعد ان کے گھر میں حملہ کیا گیا۔ حملہ آوروں نے اسے بے دردی سے مارا پیٹا، اورجنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ کی جانی والی زیادتی کی ویڈیو ریکارڈ نگ بھی کی اس کے شوہر کوجب زیادتی کا پتہ چلا تو اسے طلاق دے دی۔امارت اسلامی کے ظلم وستم کے ہاتھ خاتون ٹک ٹاکر پاکستان بھاگنے پر مجبور ہوئی۔

24 سالہ صحافت کی طالبہ اور کارکن پری کو طالبان کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے سنگسار کرکے موت کی سزا سنائی گئی اور اسے انتہائی جسمانی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔یہاں تک کہ اس کے ساتھ بے ہوشی کی حالت میں بھی زیادتی کرتے رہے۔ انہوں نے افغان طالبان کے رویہ اور ظلم کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شکایت درج کرائی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں