عالمی امن کو خطرہ لاحق، ترکستان اسلامک پارٹی کا بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی حمایت

تیمور خان

افغانستان میں طالبان کا اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں موجود مقامی، علاقائی اور عالمی مسلح دہشت گرد تنظیموں کی آپس میں بڑھنے والے رابطوں اور باہمی تعاون سے افغانستان سمیت خطے اور عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں جس سے قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں طے پانے والا امن معاہدہ بھی بے معنی رہ گیا ہے۔ ان خطرات سے وقتاً فوقتا افغانستان کی نگران حکومت اور عالمی برادری کو خبر دار کیا جارہاہے۔ افغانستان میں مبینہ طور پر القاعدہ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان، بلوچ علیحدگی پسند گروپس اور چین کے صوبے سنکیانگ میں برسرپیکار ترکستان اسلامی پارٹی کے مراکز اور ارکان کی موجودگی سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر جدید جنگی اسلحہ اور ٹیکنالوجی ان تنظیموں کے ہاتھوں لگ جانے سے بھی کافی تشویش پائی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)کے ذریعے چین کے شہریوں کو ٹارگٹ کیا جارہاہے اگرچہ بی ایل اے چین کے شہریوں کو ٹارگٹ کرنے کی وجہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کو قرار دے رہے ہیں اور اس بارے ان کے بیانات بھی آچکے ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں کسی بھی تنظیم کی جانب سے ایسے بیانات سامنے نہیں آئے ہیں جس میں انہوں نے چین کے شہریوں کو ٹارگٹ کرنے کی وجوہات بیان کی ہوں۔
طالبان ذرائع کے مطابق ترکستان اسلامک پارٹی(ٹی آئی پی) اور بلوچستان لبریشن موومنٹ (بی ایل اے) کا نظریہ مختلف ہے ٹی آئی پی جہادی تنظیم ہے اور وہ عرصہ دراز سے جہادی نظریہ پر قائم ہے جبکہ بی ایل اے ایک قوم پرست تحریک ہے جو اپنے صوبے کی آزادی چاہتی ہے۔ٹی آئی پی کا ایجنڈا وسیع تر اسلامی نظام کا قیام ہے جبکہ بی ایل اے محض ایک خطے میں اپنی حکومت چاہتی ہے البتہ بی ایل اے اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان روابط اور بلوچستان میں بالخصوص آپریشنل تعاون موجود ہے اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ دونوں کا دشمن مشترک ہیں جس نے دو مختلف الخیال گروہوں کو ریاست پاکستان کے خلاف کسی حد تک متحد کر دیا ہے۔ان دو مسلح گروہوں کے درمیان جماعتی اور انفرادی دونوں سطحوں پر روابط موجود ہیں لیکن یہ مستقل طور پر ایک دوسرے پر انحصار نہیں کرتے بلکہ وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے مدد حاصل کرتے ہیں۔ بی ایل اے اور ٹی آئی پی کا ’مشترک دشمن‘ چین کی شکل میں موجود ہے لیکن تاحال ان دو تنظیموں کی جانب سے ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کا کھل کر اظہار نہیں کیا گیاہے۔
طالبان ذرائع کے مطابق بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے پاس چھوٹے ڈرونز (ویڈیو فوٹیجز کے لئے استعمال ہونے والے) تو موجود ہیں لیکن اسلحہ بردار بڑے ڈرونز کسی کے پاس موجود نہیں ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی کے کمانڈر انچیف بشیر زیب بلوچ کے متعدد بیانات کے مطابق چین سمیت کوئی بھی غیر ملکی اگر بلوچستان کے وسائل کو ہڑپ کر رہا ہے تو وہ ان کا دشمن ہے۔ان کے مطابق چین نے ان کے خطے میں سرمایہ کاری کی ہے اور ان کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ ”چین ہمارے زمین پر آبادکاری بھی کر رہا ہے اس لئے ہم ان کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔“ بشیر زیب بلوچ کے حالیہ بیان کے مطابق چین گوادر میں باڑ لگا رہا ہے جس سے وہاں پر کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور گوادر کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے لیکن وہ اپنے قبضے کو طول نہیں دے سکتے۔ ”کیونکہ ہم اس منصوبہ کو کسی طور تسلیم نہیں کریں گے اور چین ہمیشہ ہمارے مسلح کارروائیوں کا ہدف رہے گا۔“ بی ایل اے کی جانب سے کراچی میں چین کے شہریوں پر بی ایل اے کے حملے کے بعد چین نے پاکستان کے سکیورٹی فورسز کے ساتھ ملکر کام کرنے کا اعلان بھی کیا ہے کیونکہ ایسا کر کے ہی وہ اس خطے سے جڑے اپنے اقتصادی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے ان کی نظریں صرف سی پیک پر نہیں بلکہ چاہ بہار بندرگاہ پر بھی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بی ایل اے کے پاس یو اے وی ٹیکنالوجی (ڈرون) کا استعمال ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے نہ ہی کہیں پر ایسا کوئی واقعہ رپورٹ ہوا ہے بی ایل کے پاس بیشتر فوٹ سولجرزہیں جن کی تربیت بھی کوئی خاص نہیں ہے نہ ہی ان کے اہلکار تربیت یافتہ ہیں تاہم بی ایل اے کے ونگ مجید بریگیڈ خودکش حملہ آوروں پر مشتمل ہے۔ بی ایل اے پر نظر رکھنے والا ایک صحافی جنہوں نے علاقے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ بی ایل اے کے پاس اسلحہ موجود ہے اور ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کا بھی اسلحہ ہے جیسا کہ ”دوشکہ” لیکن ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ بی ایل اے نے 2018 کے بعد سے زیادہ توجہ لٹریچر پر مرکوز کی ہوئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نظریاتی طور پر خود سے جوڑ سکیں۔ان کے گروپ میں خواتین بھی شامل ہو رہی ہیں جن کے ذریعے خودکش دھماکے بھی کئے گئے ہیں۔
ان کے مطابق بی ایل اے چین کے شہریوں کو صرف اور صرف بلوچستان میں سرمایہ کاری کی وجہ سے ٹارگٹ کررہی ہے اور پنجابی آباد کار یاں مزدور جنہیں وہ اپنی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرنے والے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں متحرک کئی ایک عسکری تنظیموں کے پاس اسلحہ بردار ڈرونز موجود ہیں۔ سب سے پہلے ایران نے اس ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کی اور ڈرون ٹیکنالوجی القاعدہ کو منتقل کیا جس سے طالبان کے مختلف دھڑوں سے ہوتے ہوئے یہ ٹیکنالوجی بی ایل اے تک بھی پہنچی ہے وہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ تاحال بی ایل اے نے کہیں ڈرون حملہ نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2005 سے 2013 تک افغانستان جانے والے بہت سے کنٹینرز کو طالبان نے افغانستان میں لوٹا جس میں اسلحہ بھی ہوتا تھا انہی میں کچھ کنٹینروں میں پارٹس کی صورت میں ڈرونز بھی تھے جو بعد ازاں ایران کو فروخت کئے گئے۔ ایران نے نہ صرف اس ٹیکنا لوجی کو عسکری تنظیموں کو منتقل کیا بلکہ خود ڈرونز بنانے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی لیکن ان کا یہ بھی کہناہے کہ ڈرونز کوئی ایسا جنگی ہتھیار نہیں ہے جس کی توڑ پاکستان کے پاس نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈرون ریڈار سے چھپنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اگر ایک بار یہ ریڈار میں ظاہر ہو جائے تو اسے مار گرانا کوئی مشکل کام نہیں ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بی ایل اے ابھی تک اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے گریزاں ہے۔ ایک اور ذرائع نے بتایا کہ بی ایل اے کے آپریٹو نے مختلف تنظیموں کے ساتھ عارضی تعاون حاصل کیا ہے۔ ”وہ قندھار اور کنڑ سمیت افغانستان کے کئی صوبوں میں موجود ہیں اور کئی میٹنگز میں شرکت کر چکے ہیں ان کے پاس ”کواڈ کاپٹر“ ڈرون ہیں لیکن اس کی آپریشنل صلاحیت محدود ہے۔”ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈرون فوٹیج کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ کلو وزنی بم لے جاتے ہیں۔ ”حملوں کے لیے بنائے گئے بڑے ڈرونزکے استعمال کے لیے ایک کنٹرول روم، رن وے اور بیس کی ضرورت ہوتی ہے۔” یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بی ایل اے اور ٹی آئی پی کے مشترکہ دشمن چین ہے جس کی وجہ سے ٹی آئی پی بلوچستان میں بی ایل اے کو سپورٹ دے رہاہے اور خیبر پختونخوا میں بھی چین کے شہریوں پر حملے کرانے میں وہ کسی نہ کسی طور پر ملوث ہیں۔
ذرائع کے مطابق ٹی آئی پی طالبان کو فنڈنگ کرتی ہے اورانہوں نے خیبر پختونخوا میں چین کے شہریوں کو بھی ٹارگٹ کیا ہے بشام کے حالیہ حملے میں بھی ٹی ٹی پی ملوث ہے۔ دہشتگردی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار حق نواز کے مطابق افغانستان کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب نے چین کے خدشات دور کرنے کیلئے اپنے ساتھ آرمی چیف قاری فصیح الدین فطرت کو بھی قطر لے گئے تھے اور ٹی آئی پی کے سینکڑوں گھرانوں کو بدخشاں سے بھی دور آباد کردیا ہے کیونکہ چین کے منصوبے نہ صرف چین بلکہ افغانستان کے مفاد میں بھی ہے۔ ٹی آئی پی ماضی میں جس طرح کھلے عام گھومتے تھے اب انہیں اس طرح گھومنے کی اجازت نہیں ہے لیکن امارات اسلامی نے انہیں تحفظ بھی دیا ہے اور وہ چین کے ساتھ حالات کشیدہ ہونے کی صورت میں استعمال بھی کرسکتے ہیں ساتھ میں انہیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر ان کے خلاف سختی کی گئی تو وہ دولت اسلامیہ یعنی داعش میں بھی شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں