عرفان خان
قومی احتساب بیورو(نیب) خیبر پختونخوا نے کورونا فنڈ میں 2 ارب 9 کروڑ روپے مبینہ کرپشن الزام میںتحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا سمیت محکمہ صحت حکام کو طلب کر لیا ۔
نیب ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت میں محکمہ صحت کے زیر انتظام کورونا فنڈ میں 2 ارب 9 کروڑ روپے کی سنگین مالی بے قاعدگیاں رپورٹ ہوئی تھیں جن کے خلاف نیب نے تحقیقات شروع کرتے ہوئے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر شاہینہ کی بیان قلمبند کر چکی ہے۔ نیب کی جانب سے سابق صوبائی وزیر کو 11 سوالات پر مشتمل سوالنامہ بھی ارسال کیا ہے .
نیب ذرائع کے مطابق خلاف قواعد منظور نظر کمپنی کو کروڑوں روپے کا ٹھیکہ دینے میں وسیع پیمانے پر کمیشن وصول کرنے کی شکایات رپورٹ ہوئی ہیں۔ اس سے قبل نیب خیبر پختونخوا نے سابق صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کے پرسنل اسسٹنٹ ارسلان کو بھی طلب کیا تھا۔
نیب ذرائع کے مطابق کورونا فنڈ میں کورونا ٹیسٹ، حفاظتی کٹس، ادویات، مشینری اور آلات کی خریداری کی مد میں خرد برد کی گئی تھی۔ انتظامی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اربوں روپے کا ٹھیکہ من پسند افراد کودیکر خزانہ کو کروڑوں روپے کاٹیکہ لگایا گیا۔ عالمی معیار کی شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر کی پہلی پوزیشن کے باوجود من پسند مقامی لیبارٹری ایم ایس اسلام آباد ڈائنوگناسٹک سنٹر (آئی ڈی سی) پر 44 کروڑ 90 لاکھ 88 ہزار روپے کی نوازش کر تے ہوئے کورونا پی سی آر ٹیسٹ کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ریپڈ انٹیجن ٹیسٹ کی مد میں 37 کروڑ 35لاکھ 12ہزرروپے سے زائد کی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں جبکہ ریپڈ ریسپانس ٹیم کو غیر قانونی طور پر36 کروڑ87 لاکھ روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی۔ آر این اے کٹ خریداری کا ٹھیکہ سب سے کم قیمت دینے والے بائیوٹیک سائنٹیفک انٹرنیشنل کی بجائے ایم ایس ہورا فارما کراچی کو دیا گیا۔ بائیو ٹیک انٹرنیشنل نے فی کٹ کی قیمت 179 روپے دیا تھا جبکہ ہورا فارما کراچی کو فی کٹ قیمت کی ادائیگی 195 روپے کے حساب سے کی گئی جس کی وجہ سے خزانہ کو 64 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے دفتر نے 17 مارچ 2020ء کو اعلامیہ کے ذریعے گریڈ 17کے ڈرگ انسپکٹر نعیم خان کو کورونا فنڈ سے خریداری سیل کی ذمہ داری تفویض کی۔ ایک ہی وقت میں انہیں گریڈ 19 کی آسامی کے مانیٹرنگ اینڈ ایوالویشن آفیسرکے اختیارات بھی دیئے گئے جو قواعد و ضوابط کے برعکس ہے۔
زیادہ قیمت میں آکسیجن سلینڈر خریداری کی مد میں خزانہ کو 4 کروڑ 40 لاکھ 64 ہزار روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔ 4 کروڑ 53 لاکھ روپے کی کارڈیک مانیٹر کی مشکوک خریداری کی گئی، ہنگامی صورتحال میں پی سی آر ٹیسٹ کا 44 کروڑ 90 لاکھ 88 ہزار روپے کا ٹھیکہ بڈنگ میں پہلی نمبر پر آنے والی شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر کی بجائے ایم ایس اسلام آباد ڈائیوگناسٹک سنٹر(آئی ڈی سی) پر خصوصی مہربانی کرتے ہوئے دیا گیا۔ تکنیکی جائزہ کے طریقہ کار کے80 فیصد نمبر مکمل طور پر تبدیل کئے گئے جو اس سے قبل ٹینڈر میں دیا گیا تھا۔ تکنیکی جائزہ کے دوران انتظامیہ نے مقامی لیبارٹری ایم ایس اسلام آباد ڈائنوگناسٹک سنٹر کوعالمی معیارکے شوکت خان میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹرپر ترجیح دی اور شوکت خانم کو کم نمبر دیکر باہر کردیا۔ اگرچہ شوکت خانم میموریل ہاسٹپل اینڈ ریسرچ سنٹر نے ماڈل اے میں تکنیکی اور مالی طور پر93.06 اور ماڈل بی میں 92.2 نمبر حاصل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ دوسری جانب مقامی لیبارٹری ایم ایس اسلام آباد ڈائنوگناسٹک سنٹر ماڈل اے میں 88.8 اورماڈل بی میں 87.77 نمبر کیساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ شوکت خانم نے روزانہ4 ہزار ٹیسٹ کے نتائج دینے کی آفر دی تھی جبکہ دوسری جانب سے ایم ایس اسلام آباد ڈائنو گناسٹک سنٹر کے پاس روزانہ 200 ٹیسٹ کرانے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ کورونا ٹیسٹ کیلئے پنجاب حکومت نے بھی عالمی معیار کے شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ یسرچ سنٹر کی خدمات حاصل کیں تاہم محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے شوکت خانم کی بجائے مقامی لیبارٹری کو ٹھیکہ سے نوازا۔ ایم ایس آئی ڈی سی کیساتھ کورونا کی ایک ٹیسٹ کی مد میں 4 ہزار200 روپے کی ہونے والی ادائیگی کا تحریری معاہدہ میں ذکر نہیں کیا گیا ہے اور یوں اس مد میں خزانہ کو 44 کروڑ 90 لاکھ 88 ہزار روپے کا ٹیکہ لگایا گیا۔
ریپڈ ریسپانس ٹیم کو غیر قانونی طور پر36 کروڑ87 لاکھ روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی۔ ریپڈ انٹیجن ٹیسٹ کی مد میں 37 کروڑ35 لاکھ 12 ہزارروپے سے زائد کی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسزنے 26 اپریل2021ء کو کورونا ایمرجنسی کے دوران ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ کیلئے کوٹیشن طلب کیں جس میں ایم ایس اعجاز انٹر پرائزز کومناسب بولی کی بنیاد پر منتخب کیا گیا اور ایم ایس اعجاز انٹرپرائزز کو ٹھیکہ دیا گیا جس کے بعد محکمہ صحت نے مذکورہ فرم کو 835 روپے فی یونٹ کے حساب سے ایبٹ /ایس ڈی برانڈ کے 20 ہزار یونٹ کا آرڈر دیا۔ جبکہ جوئز بائیو برانڈ کے 80 ہزار یونٹ کا آرڈر بھی دیا گیا۔ اس اثناء میں اسی بولی میں حصہ لینے والی ایم ایس اے ایس انٹرپرائزز نے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے پاس تحریری شکایت درج کرائی کہ محکمہ نے جس فرام کا انتخاب کیا ہے انہوں نے عالمی ادارہ صحت کے جعلی دستاویزات جمع کرائے ہیں تاہم محکمہ نے شکایت پر نوٹس لینے کی بجائے مذکورہ فرم کو مزید آرڈر دیا اور یوں اس مد میں خزانہ کو37 کروڑ 35 لاکھ 12 ہزارروپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کی ریکارڈ کے مطابق ریپڈ ریسپانس ٹیم ون اور ریپڈ ریسپانس ٹیم ٹو کو 36 کروڑ87 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی جنہیں اضلاع کی سطح پر کورونا مریضوں سے نمونے اکٹھی کرنے اور کورونا سے متعلق سرگرمیوں کے حوالے سے مقرر کیا گیا تھا۔ ٹیم ممبر کو 3ہزار500 اور4 ہزار500 روپے یومیہ کے حساب سے ادائیگی کی گئی۔ ممبران کو کی جانے والی ادائیگی کی کسی بھی فورم سے منظوری نہیں لی گئی اور جن افراد کو روزانہ کے حساب سے ادائیگی کی گئی ہے وہ پہلے ہی سے سرکاری خزانہ سے ماہانہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ ریپڈ ریسپانس ٹیم کے ممبران کی فہرست ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی جانب سے فراہم کی گئی جس میں ان کے عہدوں کا ذکرنہیں ہے جو کی جانے والی ادائیگی کے طریقہ کار کو مشکوک بناتی ہے۔ اگرچہ ممبران کو موبی لنک کیش کے ذریعے ادائیگی کی گئی ہے تاہم کمپنی کی جانب سے کسی قسم کی رسید دستیاب نہیں ہے۔ اس مد میں کی جانے والی تمام اخراجات مشکوک طریقہ سے کی گئی ہے۔
اسی طرح ٹیکسی کی خدمات حاصل کرنے کی مد میں خزانہ کو 2 کروڑ33 لاکھ 81 ہزار روپے کا ٹیکہ لگایا گیا۔ ہر ضلع میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو ٹیکسی ڈرائیور کی فہر ست فراہم کرنے کا کہاگیا تھا جو ریپڈ ریسپانس ٹیموں کو سفری سہولت فراہم کرتی رہی۔ ہر ٹیکسی ڈرائیور کو روزانہ کی سرگرمیوں کے حساب سے3 ہزار روپے کے حساب سے ادائیگی کی گئی اور یہ رقم براہ راست ٹیکسی ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جانی تھی۔ اس مد میں صرف جنوری 2021ء کا ریکارڈ دستیاب ہے تاہم دیگر مہینوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔
سیلز ٹیکس کی کٹوتی نہ کرنے پر خزانہ کو 29 لاکھ 75 ہزار روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ایم ایس لائف سپین کو صواب ٹیسٹ لینے کیلئے ایک کروڑ75 لاکھ روپے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ سیلز ٹیکس کی مد میں 29 لاکھ 75 ہزار روپے کٹوتی نہ کرنے سے خزانہ کو نقصان پہنچایا گیا۔ پبلک ہیلتھ کال سنٹر کیلئے ایم ایس سائبرڈ پرائیویٹ لمیٹڈ کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے پر خزانہ کو ایک کروڑ 42 لاکھ 16 ہزار روپے کا ٹیکہ لگا یا جا چکا ہے۔
کورونا کا فضلہ ضائع کرنے کیلئے کنٹریکٹر کو 12 کروڑ73 لاکھ 51 ہزار روپے کی غیر مستند ادائیگی کی گئی۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز نے3 جولائی 2020ء کو تمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کو ایک مراسلہ کے ذریعے آگاہ کیا کہ ہر ہسپتال انتظامیہ ایک فوکل پرسن مقرر کرے تاکہ وہ کورونا میں استعمال ہونے والی ہسپتال سے متعدی فضلہ کو ضائع کرنے کیلئے اے آر اے آر سروسز کے نمائندوں سے رابطے میں رہے تاہم ڈائریکٹر جنرل کی ہدایت کے باوجود فوکل پرسن کے دستخط کے بغیر رقم کی ادائیگی کی گئی۔ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وسیع پیمانے پر متعلقہ کنٹریکٹر کو مشکوک ادائیگی کی گئی ہے۔
نیب ذرائع کے مطابق 4 کروڑ53 لاکھ روپے کی کارڈیک مانیٹر کی مشکوک خریداری کی گئی۔ 21 مارچ 2020ء کو محکمہ صحت کی اعلامیہ کے مطابق خریداری کمیٹی بولی میں حصہ لینے والے پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی فرم کو ٹھیکہ دیا جائے گا۔ محکمہ نے کورونا فنڈ سے 300 کارڈیک مانیٹرز کی خریداری کیلئے متعلقہ کنٹریکٹر کو 4 کروڑ53 لاکھ روپے کی ادائیگی کر دی تاہم ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز نے 16 جون 2020ء کو پراجیکٹ ڈائریکٹر پی ایم یو ای آر کے ایف کو مراسلہ ارسال کرتے ہوئے درخواست کی کہ 300 کارڈیک مانیٹر کی خریداری متعلقہ کنٹریکٹر سے کی جائے۔ تاہم پروکیورمنٹ سپیشلسٹ پی ایم یو ای آر کے ایف نے 29 جولائی 2020ء کومراسلہ جاری کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز نے پہلے ہی سے 700 کارڈیک مانیٹرز کی خریداری کی درخواست کی ہے۔
زیادہ قیمت میں آکسیجن سلینڈر خریداری کی مد میں خزانہ کو4 کروڑ 40 لاکھ 64 ہزار روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ محکمہ صحت کی جانب سے این سی او سی کو جمع کرائے گئے آکسیجن کے چھوٹے سلینڈر کی قیمت 18سے 20 ہزار روپے جبکہ بڑے آکسیجن سلینڈر کی قیمت 23 سے25 ہزار روپے ظاہر کی گئی۔ مالی سال 2020-21 ء کے دوران مختلف کنٹریکٹر ز کو آکسیجن سلینڈر کی فراہمی پر مجموعی طور پر14 کروڑ99 لاکھ 19 ہزار روپے کی ادائیگی کی گئی اور دیئے گئے قیمت کی بجائے آکسیجن کے صرف ایک سلینڈر کی مد میں 28 ہزار سے لیکر ایک لاکھ 19ہزار روپے تک کی ادائیگی کی گئی۔ یوں اس مد میں 4 کروڑ40 لاکھ 64 ہزار روپے کی بے قاعدگیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔